خوشا ہم سےنکمّوں کے سروں پر اُن کا سایہ ہے
خُدا نے سب عطاؤں کا جنہیں قاسم بنایا ہے
کوئی اقصٰی تلک پہنچے ، کوئی سدرہ پہ جا پائے
مرے آقا کو "ادنٰی" تک شبِ اسرٰی بُلایا ہے
سجےہیں جن گھروں میں بھی درودِ پاک کے حلقے
تو رحمت کے فرشتوں نے وہیں میلہ لگایا ہے
رہا صلِّ علیٰ جن کا وظیفہ زندگانی میں
لحد کا ایک اِک گوشہ اُنہی کا جگمگایا ہے
ابوبکر و عُمر ہوں یا وہ عُثمان و علی آقا!
تری نسبت سے ہر کوئی زمانے بھر پہ چھایا ہے
گُناہوں کے سبب جب حشر میں ہم تھے سراسیمہ
وہاں تیری شِفاعت کا وسیلہ کام آیا ہے
جلیل اپنے مُقدّر پر بھلا کیسے نہ اِتراؤں
کہ مُجھ جیسے نکمّے کو بھی آقا نے بُلایا ہے