کوئی ہنر ہے نہ مجھ میں کمال رکھا ہے
مگر حضور نے مجھ کو سنبھال رکھا ہے
درودِ پاک میں کیسا کمال رکھا ہے
مصیبتوں کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے
نہیں ہے تابِ نظارہ یہ جانتی ہے مگر
’’ نظر نے دید کی حسرت کو پال رکھا ہے‘‘
سنوارتے ہیں وہیں سے وہ سب کا مستقبل
نبی کے پیشِ نظر اپنا حال رکھا ہے
فلک پہ چاند کی صورت میں حق تعالیٰ نے
مِرے حضور کا عکسِ جمال رکھا ہے
ہر اک سوال کی رکھی ہے آبرو شہ نے
جہاں سے جس نے بھی جیسا سوال رکھا ہے
شفیقؔ آپ نے گستاخِ مصطفےٰ کے لئے
سنا ہے جیب میں خنجر سنبھال رکھا ہے
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- متاعِ نعت