کیا لطف ہے سخن کا اگر چشم تر نہ ہو

کیا لطف ہے سخن کا اگر چشم تر نہ ہو

ملتا نہیں ہے درد جو ان کی نظر نہ ہو


ہو اس طرح سے اپنی مدینے میں حاضری

آئے درِ حبیب تو اپنی خبر نہ ہو


جھکتا ہے میرا دل بھی مرے سر کے ساتھ ساتھ

ممکن نہیں کہ آپ کی یہ رہگذر نہ ہو


جس شب رُخِ حبیبؐ کا جلوہ نصیب ہو

پھر اس کی حشر تک بھی الہٰی سحر نہ ہو


زخمِ خیال یار ہی دل کا علاج ہے

مانگو یہی دعا کہ دعا میں اثر نہ ہو


بے کیف زندگی ہے ظہوریؔ تمام اگر

مجھ کو نصیب آپؐ کے در کا سفر نہ ہو

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

مَن موهنا مَن ٹھار مدینے والا اے

ملے ہم کو رب کی عنایت کی بارش

اے سب توں سوہنیا عرب دیاں والیا

حبیب خدا دے گراواں دی محفل

مرے علو مرتبت منزہ مقام آقاؐ

اشعار

مری بے بسی پہ کرم کرو

مسرت، شادمانی، اور شہرت بھی میسر ہے

وہ مطلعِ انوارِ سحر کیسا لگے گا

دنیا تے آیا کوئی تیری نہ مثال دا