لائے تشریف دنیا میں شاہِ حجاز
رنگ اور نسل کا مٹ گیا امتیاز
درسِ اخلاق و انسانیت کے طفیل
خود سروں نے بھی سیکھا ہے عجز و نیاز
لے کے آئی جہاں میں نظامِ حیات
ذاتِ قانون داں ذاتِ قانون ساز
قربِ خاصِ خدا میں گئے جب نبیؐ
لے کے آئے حسیں تحفہ ہائے نماز
پاک دامانیِ عائشہ دیکھیے
کہہ رہا ہے کلامِ خدا پاک باز
کوئی ثانی نہیں ان کا کونین میں
ہے پیمبر کا وہ طُرّۂ امتیاز
وہ منافق ہیں قرآں میں جو آج بھی
مصطفیٰؐ کی اہانت کا ڈھونڈیں جواز
الفتِ شاہِ دیں جن کے دل میں نہیں
ہم کو ایسوں کی صحبت سے ہے احتراز
اپنے محبوب پر رب نے وا کر دیے
پردۂ غیب میں جو تھے سربستہ راز
فخر ہے تاج شاہی پہ شاہوں کو جو
ہے نبیؐ کی غلامی پہ احسؔن کو ناز