لکھوں مدح پاک میں آپ کی مری کیا مجال مرے نبی

لکھوں مدح پاک میں آپ کی مری کیا مجال مرے نبی

نہ مزاجِ حرف کی آگہی نہ ہوں خوش مقال مرے نبی


مجھے اپنے رنگ میں رنگ دیں مرے دل کو اپنی اُمنگ دیں

ہو عطا وہ لذتِ سوز جاں جو ہو لازوال مرے نبی


میں نواحِ شب میں بھٹک گیا نئے سُورجوں کی تلاش میں

کوئی روشنی کہ بدل سکے مری شب کا حال مرے نبی


کہیں نفرتیں کہیں رنجشیں کہیں خاک و خون کی بارشیں

مرے عہد میں ہے عجیب رنگ کا اشتعال مرے نبی


مری زندگی کی کتاب میں سبھی حرف نعت کے حرف ہوں

اسی ذکر و فکر میں ہوں بسر مرے ماہ و سال مرے نبی


جہاں شاخِ نعت لہکتی ہے جہاں کائنات مہکتی ہے

کوئی نعت ہو اسی شہر میں ہے یہی سوال مرے نبی


لکھے حرفِ زندہ بھی نعت میں ہے صبیحؔ کی یہی آرزو

کوئی ایسی طرز سخن ملے پئے عرضِ حال مرے نبی

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

حق سے بندوں کو ملایا آپ نے

ذہن کے سادہ اُفق پر تیری خوشبو اور تُو

خدا دی خُدائی محمد دے در تے

بیٹھے ہیں ترے در پہ غلاموں پہ نظر ہو

پیار سے دیکھتا ہے خدا بھی اُسے جو بشر مصطفے کی نظر میں رہے

اپنے پرائے سے بے گانہ لگتا ہے

کیسے ہیں دو جہاں کے نبیؐ سوچتا رہوں

کیا عزت و شہرت ہےکیاعیش و مسرت ہے

اُن کے در سے جو غلامی کی سند تک پہنچے

آج کی شب بڑی سہانی ہے