لپٹ کر سنگِ در سے خوب رو لوں

لپٹ کر سنگِ در سے خوب رو لوں

سیاہی قلب کی اشکوں سے دھو لوں


بڑا دل کش مدینے کا ہے منظر

یہی منظر نگاہوں میں سمو لوں


حذر ہے در بدر کی ٹھوکروں سے

محمدﷺ مصطفیٰ کے در کا ہو لوں


زیارت خواب میں ہو جائے شاید

اسی امید پر کچھ دیر سو لوں


ثنا خواں ہوں شہِ کون و مکاں کا

جو امرت نعت کا کانوں میں گھولوں


ادب خاموش رکھتا ہے زباں کو

کہیں اعمال سے نا ہاتھ دھو لوں


بڑے ارمان ہیں اشفاقؔ دل میں

میں کشتِ نعت میں کچھ لفظ بو لوں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

درود اپنے نبی کو پیش کرنا میری عادت ہے

اشکوں سے بولتے ہیں جو لوگ لب سے چپ ہیں

وُہ مصؐطفےٰ ہیں

رمزِ وحدت کیا ہے ذاتِ مصطفیٰؐ جانے فقط

بادہء عشق نبی پی کے بھی پیاسیں نہ گئیں

محبوب خدا دا، دو جگ تے میں راج نہ آکھاں تے کی آکھاں

کیا مرتبہ ہے اُس تن عنبر سرشت کا

نہیں ہے تابِ نظّارہ شہِ ابرار کو دیکھیں

محمد سر اسرار الہی

اے قدیرِ قدرتِ بیکراں مجھے اذنِ عرضِ سوال دے