لو ختم ہوا طیبہ کا سفر

لو ختم ہوا طیبہ کا سفر ، دل وجد میں ہے جاں وجد میں ہے

ہے گنبدِ خضرا پیشِ نظر دل وجد میں ہے جاں وجد میں ہے


پڑھتی ہے ہوا قرآن یہاں کرتا ہے وضو ایمان یہاں

اللہُ غنی یہ کیف و اثر دل وجد میں ہے جاں وجد میں ہے


بیٹھا ہوں نبی کے قدموں میں ، صدیا ں سمٹی ہیں لمحوں میں

اس حاضری اور حضوری پر دل وجد میں ہے جاں وجد میں ہے


پلکوں پہ دیے جھلمل جھلمل لفظوں کا ادا کرنا مشکل

جذبوں کی زباں ہے چشمِ تر دل وجد میں ہے جاں وجد میں ہے


اُس در کی سلامی نے مجھ کو ، وہ کیف دوامی بخشا ہے

اب جس کے اثر سے شام و سحر دل وجد میں ہے جاں وجد میں


ہے

بجھتی ہوئی آنکھوں کو لے کر حاضر ہوں صبیحؔ مواجہ پر


ہر منظر ہے معراجِ نظر دل وجد میں ہے جاں وجد میں ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

آنکھ والوں کا رابطہ نہ گیا

بُری ہے یا بھلی اُس کے لیے ہے

جو نور بار ہوا آفتابِ ُحسنِ َملیح

بادہء عشق نبی پی کے بھی پیاسیں نہ گئیں

ہمارے سر پہ ہے سایہ فگن رحمت محمد کی

(بحوالہ معراج)جانبِ عرش ہے حضرتؐ کا سفر آج کی رات

ان کی یادوں کا دیا دل میں جلائے رکھنا

نبي محترم صدیاں تمہارے نام سے روشن

نبیؐ کے پائے اقدس سے ہے مجھ کو رابطہ رکھنا

مَدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع