مہک میں رب نے بسائے رسول کے گیسو

مہک میں رب نے بسائے ،رسول کے گیسو

کہ مشک و گل کو ہیں بھائے، رسول کے گیسو


عیاں ہے جمعِ نقیضینِ روز و شب کا سماں

”رُخِ رسول پہ آئے، رسول کے گیسو“


سَحابِ رحمتِ رَبِّ قدیر کی صورت

تمام خلق پہ چھائے، رسول کے گیسو


گھٹا کہوں کہ شبِ تار ، تم کو ، حیراں ہوں

ہیں گنگ سارے کِنائے، رسول کے گیسو !


اسے ڈَسا نہیں پھر مارِ رنج و غم نے کبھی

ہیں جس کے ہاتھ میں آئے، رسول کے گیسو


بندھا ہے تارِ رگِ جانِ عالَمیں ان سے

کنڈل جبھی ہیں بنائے، رسول کے گیسو


انہیں نہ مارِ سِیَہ کہہ ! کہ ہے ادب کے خلاف

اگرچہ شانوں پہ آئے، رسول کے گیسو


اسے ستائے نہ خورشید حشر کی گرمی

تمہارے جس پہ ہوں سائے، رسول کے گیسو !


دُھلے گی پل میں معظمؔ سیاہی عِصیاں کی

اگر برسنے پہ آئے ، رسول کے گیسو