میں جو یُوں مدینے جاتا تو کچھ اور بات ہوتی

میں جو یُوں مدینے جاتا تو کچھ اور بات ہوتی

کبھی لَوٹ کر نہ آتا تو کچھ اور بات ہوتی


میں مدینے تو گیا تھا یہ بڑا شَرَف تھا لیکن

وَہیں دم جو ٹوٹ جاتا تو کچھ اور بات ہوتی


غمِ روزگارمیں تو مرے اَشک بہ رہے ہیں

تِرا غم اگر رُلاتا تو کچھ اور بات ہوتی


نہ فُضول کاش! ہنستا تری یاد میں تڑپتا

مجھے چَین ہی نہ آتا تو کچھ اور بات ہوتی


یِہی آہ! فکرِ دنیا مِرا دل جَلا رہی ہے

غمِ ہِجر گر ستاتا تو کچھ اور بات ہوتی


یہاں قبر میں کرم سے تری دید مجھ کو ہوگی

جو بقیعِ پاک پاتا تو کچھ اور بات ہوتی


بَزَبانِ زائِریں تو میں سلام بھیجتا ہوں

کبھی خود سلام لاتا تو کچھ اور بات ہوتی


ارے زائرِ مدینہ !تُو خوشی سے ہنس رہا ہے

دلِ غمزدہ جو لاتا تو کچھ اور بات ہوتی


مِری آنکھ جب بھی کھلتی تِری رَحمتوں سے آقا

تجھے سامنے ہی پاتا تو کچھ اور بات ہوتی


تُو مدینہ چھوڑ آیا تجھے کیا ہوا تھا عطارؔ

وَہیں گھر اگر بساتا تو کچھ اور بات ہوتی

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

آؤ مدنی قافِلے میں ہم کریں مل کر سفر

خاتم الانبیاء رسول اللہ ﷺ

نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی خواہش

پُوچھتے مُجھ سے تُم ہو کیا صاحب

یہ اکرام ہے مصطفےٰ پر خدا کا

جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسولؐ کی

محمد کے جلوے نظر آ رہے ہیں

ذکر تیرا جو عام کرتے ہیں

میں اُس زمانے کا منتظر ہوں زمانہ جب بے مثال ہوگا

نہ چھیڑو ذِکرِ جنت اب مدینہ یاد آیا ہے