میں نے اس قرینے سے نعتِ شہ رقم کی ہے

میں نے اس قرینے سے نعتِ شہ رقم کی ہے

شعربعد میں لکھا پہلے آنکھ نم کی ہے


یہ خیال رہتا ہے یہ ملال رہتا ہے

مدحتِ نبی میں نے جتنی کی ہے کم کی ہے


میرے ساتھ چلتی ہیں برکتیں دُرودوں کی

میری راہ میں آئے ، کیا مجال غم کی ہے


اُن کو سوچتے رہنا بھی تو اک عبادت ہے

اور یہ عبادت بھی ہم نے دم بہ دم کی ہے


میں غزل سے دُور آیا جب سے یہ شعور آیا

نعتِ مصطفی لکھنا آبرو قلم کی ہے


اُں کو چاہنے سے میں چاہا جا رہا ہوں صبیح ؔ

بھیک میرے دامن میں اُن کے ہی کرم کی ہے

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں

اُجالے کیوں نہ ہوں دیوار و در میں

اپنے دربار میں آنے کی اجازت دی ہے

کھو یا کھو یا ہے دل

اُن کا احساں ہے خدا کا شکر ہے

میں نے اس قرینے سے نعتِ شہ رقم کی ہے

شہر ِ نبی کی کرلی زیارت الحمد اللہ الحمد اللہ

غنچہ ِ نعت جو ہونٹوں پہ چٹک جاتا ہے

لو ختم ہوا طیبہ کا سفر

غم نہیں جاتی ہے جائے ساری دنیا چھوڑ کر

زباں سے نکلا صلِّ علیٰ مواجہ پر