منشا مرا بیانِ حیاتِ رسول بس
مقصد مرا رضائے خدا کا حصول بس
پروانہ کو ہے شمع تو بھنورے کو پھول بس
عاشق کو نعلِ سیدِ عالم کی دھول بس
اللہ نے حبیب کا خود ہی کیا دفاع
کوثر کی پڑھ کے دیکھیے شانِ نزول بس
نعتِ رسول پاک ہے اس کا ورق ورق
ظاہر میں ہے قرآن کتابِ اصول بس
چوما تھا ایک روز عمامہ رسول کا
جنت میں جائے گا وہی خارِ ببول بس
یوں تو چمن میں اور بھی غنچے کئی کھلے
نکہت فزا ہیں فاطمہ زہرا کے پھول بس
ہم جس دعا کے اول و آخر پڑھیں درود
حاصل اسی دعا کو ہو شرفِ قبول بس
دینِ محمدی میں نئی روح پھونک دی
مشہور ہے شہادتِ سبطِ رسول بس
ہیرے جواہرات زر و مال کچھ نہیں
احمد رضا کو بیعتِ آلِ رسول بس
مل جائے کاش نظمی کو حسّان کی زباں
پڑھتا رہے ہمیشہ ثنائے رسول بس