مقدور میں دیارِ حَرم کا سفر کہاں

مقدور میں دیارِ حَرم کا سفر کہاں

میری جبیں کہاں وہ درِ مُفتخر کہاں


اِس بزم میں کہاں گُذَرِ فکرِ نارسا

شائستٔہ حضور ابھی ذوقِ نظر کہاں


ہر اک کے سامنے وہ اُٹھاتے ہیں کب حجاب

ہر آشیاں نشانۂ برق و شرر کہاں


کُوئے بتاں سے کُوئے حَرم تک پہنچ گئی

دیکھو اُٹھی کہاں سے تو ٹھہری نظر کہاں


اُن کی نظر نہ ہو تو یہ عزمِ سفر ہے کیا

اُن کا کرم نہ ہو تو یہ ذَوقِ سفر کہاں


ہیں کتنیِ اشکہائے عقیدت سے بہرور

ہر آنکھ کو نصیب یہ لعل و گہر کہاں


بھیجے ہزار ہم نے دُعاؤں کے قافلے

اُس بارگاہِ ناز میں لیکن گُذر کہاں


کردے جو چاک پردہء تاریکیِ حیات

وہ آہِ نیم شب وُہ فغانِ سحَر کہاں


آنکھوں کے سامنے ہے درِ شاہِ دو جہاں

اپنی نظر میں خُلد کے اب بام و دَر کہاں


دُنیا گئی جہَان گیا قافلے گئے

ہم بھی درِ حضورؐ پہ جاتے مگر کہاں


اعظؔم اسِی خیال نے روکا ہے آج تک

حضرتؐ کا آستانہ کہاں اپنا سر کہاں

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

جب عشق تقاضا کرتا ہے تو خود کو جلانا پڑتا ہے

میرے اندر فروزاں حضورؐ

ترا ظہور ہوا چشم نور کی رونق

بختِ سیاہ جب درِ عالی پہ رکھ دیا

وہ کیسا سماں ہوگا، کیسی وہ گھڑی ہوگی

یاد جدوں آئی طیبا دی

مصطفیٰ روشن کریں گے جب شفاعت کا چراغ

لبیک اللّٰھم لبیک

جس نے عشق شہ دیں سینے میں پالا ہوگا

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں