مرحبا وہ روضۂ سرکار اللہُ غنی

مرحبا وہ روضۂ سرکار اللہُ غنی

بول اُٹھا جس نے کیا دیدار اللہُ غنی


مسجدِ نبوی کے وہ مینار اللہُ غنی

گُنبدِ خضرا کے وہ انوار اللہُ غنی


خوب صورت گلشنِ طیبہ کے سارے پھول ہیں

اُن کے صحرا کے وہ دلکش خار اللہُ غنی


حق نے والشمس و ضُحیٰ قرآن میں فرما دیا

جگمگاتا وہ رُخِ سرکار اللہُ غنی


رازِ والیلِ اِذا یغشیٰ ہُوئے لاریب جو

مصطفیٰ کے گیسوئے خمدار اللہُ غنی


لامکاں وہ پہنچ کر اِک آن ہی میں آگئے

شاہ کی معراج میں رفتار اللہُ غنی


امن کا مُژدہ دیا ہے خون کے پیاسوں کو بھی

ہے بلند اخلاق اور کردار اللہُ غنی


یُوں تو سارے ہی صحابہ شان والے ہیں مگر

حضرتِ صدیق یارِ غار اللہُ غنی


ربِّ سَلِّم کی صدا نے پار ہم کو کردیا

تیغ سے تھی تیز پُل کی دھار اللہُ غنی


اور اِک روشن غزل مرزا سُناو جھوم کر

خوب تھی نعتِ شہِ ابرار اللہُ غنی

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

کرم بن گئی ہے عطا ہوگئی ہے

شاہِ دو عالم سُں لیجئے میری نوا میری فریاد

کرتے ہیں سرکارؐ خود دِل داریاں

کہکشاں کہکشاں آپ کی رہگذر

ہے اُن کے حُسن ِ مساوات کی نظیر کہاں

ختم رُسل کونین دا سردار آگیا

مرحبا عزت و کمالِ حضور

آرزو ہے تو یہی ہے اس گدا کی آرزو

الٰہی دِکھا دے مجھے وہ مدینہ

جیسے میرے آقا ہیں کوئی اور نہیں ہے