مرکز میرے فکر کا وہ مکّی محبُوب
فطرت کی رعنائیاں جس سے ہیں منسوب
جو فرمائے عقل ہے بنیاد ِ اسلام
جو سمجھائے عشق کو ہر خوب و نا خوب
جس کا راس المال ہے مولا کا عرفان
وہ طالب اللہ کا اور اس کا ہےمطلوب
ساتھی اس کا عِلم ہے ، شوق اس کا رہوار
سرتا پا تنزیل ہے جینے کا اسلوب
جو ہر سب اسلاف کے اس میں ہیں یکجا
عیسیؑ کا وہ زہد ہو یا صبرِ ایّوب
اُس کی سیرت نقش ہے جن جن ذہنوں پر
وہ تہذیب ِ عصر سے ہوں کیسے مرعوب
گر سنّت سرکارؐ کی اُمّت اپنالے
کر سکتی ہے آج بھی باطل کو مغلوب
تنویر اُس کے دین کی ہر سُو چھائے گی
یہ ارشادِ خاص ہے قرآں میں مکتوب
تائبؔ میرے واسطے سب کچھ اُسکی ذات
کھولا جس کی مدح نے ہر رازِ محجوب