مِرا تو سب کچھ مِرا نبی ہے

مِرا تو سب کچھ مِرا نبی ہے

سیاہیاں مجھ میں داغ مجھ میں


جلیں اُسی کے چراغ مجھ میں

اثاثہ قلب وجاں وہی ہے


مِرا تو سب کچھ مِرا نبی ہے

مِرے گناہوں پہ اُس کا پردہ


وہ میرا امروز میرا فردا

ضمیر پر حاشیے اُسی کے


شعور بھی اُس کا وضع کردہ

وہ میرا ایماں مِرا تیقن


وہ میرا پیمانۂ تمدن

وہ میرا معیار زندگی ہے


مِرا تو سب کچھ مِرا نبی ہے

وہ میری منزل بھی ہمسفر بھی


وہ سامنے بھی پس نظر بھی

وہی مجھے دُور سے پکارے


اُسی کی پرچھائیں روح پر بھی

وہ رنگ میرا دُہ میری خوشبو


میں اُس کی مٹھی کا ایک جگنو

وہ میرے اندر کی روشنی ہے


میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے

اُسی کے قدموں میں راہ میری


اُسی کی پیاسی ہے چاہ میری

اُسی کی مجرم مِری خائیں


اُسی کی رحمت گواہ میری

اُسی کا غم مجھ کو ساتھ رکھے


وہی مِرے دل پہ ہاتھ رکھے

وہ درد بھی ہے سکون بھی ہے


مِرا تو سب کچھ مِرا نبی ہے

ازل کے چہرے پہ نور اس کا


ظہور عالم ظہور اس کا

خود اُس کی آواز گفتۂ حق


خود اُس کی تنہائی طور اُس کا

بہت سے عالی مقام آئے


خدا کے بعد اُس کا نام آئے

وہ اولیں ہے وہ آخری ہے


مِرا تو سب کچھ مرا نبی ہے

نہ مجھ سے بارِ عمل اٹھے گا


نہ عضو ہی کوئی ساتھ دے گا

اگر کہے گا تو روزِ محشر


خدا اسے میرا نبی کہے گا

سیاہیاں داغ صاف کردے


اسے بھی مولا معاف کردے

یہ میرا عاشق ہے وارثی ہے


مِرا تو سب کچھ مِرا نبی ہے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- نورِ ازل

دیگر کلام

رات دن اُن کے کرم کے گیت ہم گاتے رہے

وارفتگانِ شوق و عزیزانِ باوفا

اللہ دیا پیاریا محبوبا تیری دو جگ تے سلطانی ایں

ڈب دے کدی نئیں جیہڑے نے تارے حضور دے

سوچا ہے اب مدینے جو آئیں گے ہم کبھی

باطل کے جب جب بدلے ہیں تیور

رُوح مِری ہے پُر سکوں قلب میرا ہے مطمئن

گھر کر چکا ہے گنبدِ خضرا خیال میں

نبی سب آچکے تو آپ کے آنے کا وقت آیا

نہ آسمان کو یوں سرکَشیدہ ہونا تھا