مُجھ کو سپنے میں ایسا اِشارہ ہوا

مُجھ کو سپنے میں ایسا اِشارہ ہوا

چل ! درِ مُصطفٰے سے بُلاوا ہوا


تب مدینے میں عاشق پہنچ ہی گئے

جب کرم میرے آقا ! تُمہارا ہوا


یہ مدینے سے واپس چلے جس گھڑی

بس دلِ عاشقاں پارہ پارہ ہوا


اُن کا نوکر ، جہنّم کا ایندھن بنے

میرے آقا کو کب یہ گوارہ ہوا


ہجر و فُرقت کے صدمے تو جھیلے مگر

دردِ دل نَے کبھی آشکارا ہوا


بس یہی ہے کسوٹی مرے پیار کی

جو بھی تیرا ہوا ، مُجھ کو پیارا ہوا


غیر کے در پہ جائیں وہ کیسے بھلا

تیرے ٹکڑوں پہ جن کا گُزارہ ہوا


ہر مصیبت ٹلی اور ٹلتی گئی

تیرے دامن کو جب سے ہے تھاما ہوا


بس درِ مُصطفٰے سے جو کٹ کر جیا

اُس کو ہر ہر قدم پر خسارہ ہوا


سبز گُنبد کو دل میں بسایا ہے یُوں

جھانک کر جب بھی دیکھا ، نظارہ ہوا


ہو کرم اِس جلیلِ حزیں پر کہ ، یہ

لے کے جائے مُقدّر سنوارا ہوا