مقدر سارے عالم کا تمہارے نام سے چمکا

مقدر سارے عالم کا تمہارے نام سے چمکا

فلک پر چاند کا چہرہ تمہارے نام سے چمکا


بُتوں نے ڈال رکھا تھا جہاں پر رات دن ڈیرا

مسلمانوں کا وہ قِبلہ تمہارے نام سے چمکا


بُلندی جس نے بھی پائی تمہارے درسے ہے پائی

ہر اِک جو نام ہے چمکا تمہارے نام سے چمکا


غلاموں نے نشانِ قیصر و کِسریٰ مِٹا ڈالا

وہاں کا گوشہ و ذرّہ تمہارے نام سے چمکا


صفیُ اللہ پر بابِ قبولیت کُھلا تم سے

اُبھر کر نوح کا بیڑا تمہارے نام سے چمکا


مِٹانے کے لئے دینِ مُبیں گھر سے عُمر نِکلے

مِلا فاروق کا رُتبہ تمہارے نام سے چمکا


اذانوں میں نمازوں میں تمہارے دم سے ہے رونق

خطیب و منبر و خُطبہ تمہارے نام سے چمکا


وہ اِنجیلِ مقدس ہو یا پھر تورات موسیٰ کی

صحیفہ جو کوئی اُترا تمہارے نام سے چمکا


گدا جو بھی تمہارے ہیں زمانے سے نِرالے ہیں

اُنھیں کا نام ہے اُونچا تمہارے نام سے چمکا


چمک سب نے تمہارے نام سے پائی کہوں میں بھی

شہا بے نورِ دل میرا تمہارے نام سے چمکا


مضامینِ جدیدہ ذہنِ مرزا پر ہُوئے وارِد

کلامِ خوشنما اِس کا تمہارے نام سے چمکا


قبولیت کی مرزا کو سند اے کاش مِل جائے

سُخن جو اِس نے ہے لکھا تمہارے نام سے چمکا

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

ثنائے مُصطفٰے کرنا یہی ہے زندگی اپنی

میٹھا مدینہ دور ہے جانا ضَرور ہے

یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیاء تیری کیا بات ہے

رو میں ہے میرا قلم ذکرِ مدینہ کی طرف

ہے کونین کے سر پہ رحمت نبی کی

کیا مجھ سے ادا ہوں ترے حق ہادئ بر حق

غیرتاں دا نُور تھاں تھاں بدر اندر چھا گیا

آراستہ کروں گا یوں اپنے سفر کو میں

سارے نبیوں کا سروَر مدینے میں ہے

گدائے کوئے حبیبؐ ہوں ملا ہے کیا دم بدم نہ پوچھو