نہ جانے عرشِ بریں تک کہ لا مکاں تک ہَے

نہ جانے عرشِ بریں تک کہ لا مکاں تک ہَے

کِسے خبر کہ تِرا مرتبہ کہاں تک ہَے


کریم اور بھی ہوں گے جہان میں لیکِن

ہماری دوڑ فقط تیرے آستاں تک ہَے


ان اپنے چاہنے والوں سے پردہ داری کیا

یہ جانتے ہیں رسَائی تری جہاں تک ہَے


کِسی کے دَر پہ جُھکے یہ جبیں معاذ اللہ

یہ ذوقِ سجدہ تِرے سنگِ آستاں تک ہَے


فقط زمین و زماں عرش و فرش پر ہی نہیں

حضورؐ آپ کا شہرہ تو لا مکاں تک ہے


نکالئے گا نہ اعظؔم کو اپنے کُوچے سے

کہ عندلیب کی دنیا تو گلستاں تک ہَے

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

دیارِ شب کے لیے قریہء سحر کے لیے

آپ کا جو غلام ہوتا ہے

راضی جیہدے اُتے مصطفی دی ذات ہو گئی

مری خوش نصیبی کی یہ انتہا ہے

اُس کو نہ چھُو سکے کبھی رنج و بَلا کے ہاتھ

گناہ ہو گئے بے بہا میرے مولا

مکے سے مدینے کا سفر یاد آیا

نَسَباً آپ ہیں اَنفَس، اے زَکِیّ و اَنفَس !

مرے لج پال کے جو چاہنے والے ہوں گے

منبعِ علمِ نبوت آپ ہیں