نہ کہکشاں میں نہ ہے قمر میں نہ وہ ضیا آفتاب میں ہے

نہ کہکشاں میں نہ ہے قمر میں نہ وہ ضیا آفتاب میں ہے

اے حسنِ کامل، اے نورِ باری جو روئے عالی جناب میں ہے

گھٹائیں الحاد و کفر کی چھا رہی ہیں دل اضطراب میں ہے

’’اٹھا دو پردہ دکھادو چہرہ کہ نورِ باری حجاب میں ہے

’’زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے‘‘


ہےسارے پھولوں میں انکی رنگت، خزینہء مشک انکا تن ہے

انہی کے زیرِ کرم سجی آسمانی شمعوں کی انجمن ہے

انہی کے جلووں کا عکس ہر گل، قسیمِ بو ان کا پیرہن ہے

’’انہی کی بو مایہءسمن ہے انہی کا جلوہ چمن چمن ہے

انہی سے گلشن مہک رہے ہیں انہی کی رنگت گلاب میں ہے‘‘


کریں عرب کے زبان والے فصاحتوں کا حصول جن سے

جڑے ہیں دینِ مبیں کے سارے رموزِ ردوقبول جن سے

ہوا ہے جب بھی فقط ہوا ہے کلامِ حق کا نزول جن سے

’’وہ گل ہیں لبہائے نازک انکے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے

گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے‘‘


تمام عمرِ عزیز گزری رہِ ہدایت سے دور رہ کر

پڑا ہوا ہوں لحد میں تنہا لیے گناہوں کا ایک دفتر

دہائی ہے یا حبیبِ داور دہائی ہے یا شفیعِ محشر

’’کھڑے ہیں منکر نکیر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور

بتا دو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے‘‘


غلام ہو یا ہو کوئی آقا ہے سب کے چہروں پہ خوفِ محشر

سوا تمہارے انا لہا کی صدا نہیں ہے کسی زباں پر

نہیں ہے کوئی سوا تمہارے ہمارا حامی ہمارا یاور

’’خدائے قہار ہے غضب پر کُھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر

بچالو آکر شفیعِ محشر تمہارا بندہ عذاب میں ہے‘‘


کیا ہے قاسم بھی مصطفےٰ کو بنا کے مختارِ کل خدا نے

دیا طلب سے زیادہ اپنے ہر ایک منگتا کو مصطفےٰ نے

عطائے شاہِ امم سے دامن بھرا ہے اپنا ہر اک گدا نے

’’کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے

بتائو اے مفلسو! کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے‘‘


کریم ہے تو کرم سے اپنے نواز دے مجھ کو بھی خدایا

جو برگزیدہ ہے تیرا بندہ اسے بھی ہے آسرا کرم کا

شفیقؔ پھر کس شمار میں ہے کہیں امامِ سخن جب ایسا

’’کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیمِ بے قدر کو نہ شرما

تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے‘‘