نبی کو حالِ دل اپنا سنانا بھول جاتا ہوں
لبوں پر لفظ کی شمعیں جلانا بھول جاتا ہوں
مجھے تو ہوش ہی رہتا نہیں عرضِ تمنّا کا
میں اُس دہلیز پر اپنا فسانہ بھول جاتا ہوں
بہت ہی نا سمجھ ہو ایک گھر کی بات کرتے ہو
میں اُن کے سامنے سارا زمانہ بھول جاتا ہوں
نکل جاتا ہوں جب میں اُن کی خوشبو کے تعاقب میں
تو پھر میں اِس جہاں میں لوٹ آنا بھول جاتا ہوں
بھڑک اُٹھتا ہے جب شعلہ کبھی اُن کی محبت کا
میں اپنے دل کے دامن کو بچانا بھول جاتا ہوں
وہاں کب ہوش رہتا ہے بھلا آنسو بہانے کا
وہاں جاتے ہی میں آنسو بہانا بھول جاتا ہوں
مجھے کچھ یاد ہی رہتا نہیں فرطِ عقیدت میں
میں اُس محفل میں ساغر تک اُٹھانا بھول جاتا ہوں
میں اتنا محو ہو جاتا ہوں ان کے شوق میں انجؔم
بسا اوقات سر کو بھی جھکانا بھول جاتا ہوں