نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

نہ جانے کب سے ہے مجھ کو یہ انتظار حضورؐ

کہ میرے سر پہ مدینے کا ہو غبار حضورؐ


نگاہ دید سے محرُوم دل تصّرف سے

قرار کِس طرح آئے نہیں قرار حضوؐر


بساطِ فِکر ہے محدُود وصف لا محدُود

نہ ہو سکیں ہیں نہ کر پاؤں گا شمار حضُورؐ


مجھے بھی کاش وہ مدحت کا شوق دے جس نے

دئے ہیں آپ کو اوصاف بے شمار حضوؐر


حضورؐ آپ کا صدقہ ہے کارگاہِ وجُود

اسی سے زیست کا قائم ہے اعتبار حضوؐر


حضوؐر آپؐ کے زیرِ قدم ہیں غیب و شہُود

کہ شش جہات کے ہیں مرکزِ قرار حضوؐر


کُچھ اس طرح سے مجھے اذنِ باریابی دیں

کہ آؤں آپؐ کے قدموں میں بار بار حضوؐر

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

سرورِ ذیشان شاہِ انبیاء یعنی کہ آپ

بس گیا چاند حرا کا دل میں

اللہ کے کرم سے نبیؐ کی عطا کا فیض

محمدؐ مصطفٰے اِسمِ گرامی

غِنا وہ آپ سے پائی ہے یارسول اللہ

درود اپنے نبی کو پیش کرنا میری عادت ہے

نہ کوئی آپ جیسا ہے نہ کوئی آپ جیسا تھا

اذاں میں مصطفیٰ کا نام جب ارشاد ہو وے ہے

مِرے دل میں ہے مدت سے

محفل ہے یہ آقا کی کیا خوب نظارے ہیں