نشاں ملتا نہ چشمِ ہوش کو اُس ذاتِ بے حد کا

نشاں ملتا نہ چشمِ ہوش کو اُس ذاتِ بے حد کا

نہ ہوتا درمیاں گر واسطہ عشقِ محمدؐ کا


گوارا ہے کسے اے جانِ جاں تُجھ سے جُدا ہونا

جُدا ہوتے نہ دیکھا سایہ بھی تُجھ سے ترے قد کا


نہ لائے کون ایماں تیرے اندازِ تیّقن پر

سُنا ہے کب کسی نے تیرے لب سے لفظ” شاید“ کا


تمیزِ روز و شب آخر ہُوئی تیری ہی طلعت سے

نہ ہوتا نام روشن تجھ سے کیوں تیرے اَب وجد کا


سجے کیونکر نہ پیراہن تجھے ختمِ رسالت کا

یہ موزوں ہی تجھے تھا اور بنا ہی تھا ترے قد کا


جہاں تُو ہے وہاں کوئی کہاں پر مار سکتا ہے

پتا جبریل کو بھی کیا تری پرواز کی حد کا


مثالِ شمِع روشن ہے وہ ہر مومن کے سینے میں

تو کیوں اطلاق ہو اس نور پر نورِ مقّید کا


نہ چھوٹے ضبط کا دامن حرم میں اے دلِ مضطر !

اے چشمِ تر ادب سے کر نظارہ سبز گُنبد کا !


در یارِ مصؐطفےٰ کا عزم ہو جب بھی کبھی اعظؔم

تو کرتے آنا نظّارہ نجف کا اور مشھد کا

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

زبانِ عاصی پہ نام تیرا

نام لے کے ان کا رب سے مانگنا

نیویں اے اسمان دی گردن وی جس دے احسانوں

گھر آمنہ دے اور چن چڑھیا جس چانن ہر تھاں لاؤنا ایں

ہر منفعت ِ دنیا سے ہوئے ہم مستغنی اللہ غنی

اعمال بھی ہمارے کسی کام کے نہیں

دور دکھ کی ردا ہو گئی ہے

روندے نین بتھیرے روندے نین بتھیرے

مدینے سے بلاوا آ رہا ہے

بادشاہی کی ہے نہ زر کی تلاش