پتا خدا کا خدا کے نبیؐ سے ملتا ہے
یہ راستہ بھی انہیںؐ کی گلی سے ملتا ہے
نہ کوئی گوشہ زمیں کا ہے اس گلی کا جواب
نہ کوئی شہر دیارِنبیؐ سے ملتا ہے
درِ نبیؐ سے ملی ہے وہ بے کلی مُجھ کو
قرار قلب کو جس بے کلی سے ملتا ہے
شعُورِ ذات، شعُورِ نظر، شعُورِ حیات
ہے جن کے نام کا صدقہ اُنہیؐ سے مِلتا ہے
وہ جسمِ آئینہ پیکر وہ نُورِ ذات و صفات
کہیں خُدا سے کہیں آدمی سے ملتا ہے
ہے بات فخر کی لیکن شرف غلامی کا
دل و نگاہ کی پاکیزگی سے ملتا ہے
زہے یہ شوقِ زیارت‘ زہے یہ خواب حنیفؔ
کبھی کبھی مرا حِصّہ ابھی سے ملتا ہے
شاعر کا نام :- حنیف اسعدی
کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام