رحمت سراپا نورِ نبوت لیے ہوئے
وہ آئے سر پہ تاجِ شفاعت لیے ہوئے
مارہرہ ہے مدینے کی قربت لیے ہوئے
اللہ کے حبیب کی نسبت لیے ہوئے
نورِ خدا سے نورِ محمد جدا نہیں
جیسے کہ پھول رہتا ہے نکہت لیے ہوئے
ان کو عطا کیا گیا معراج کا شرف
لوٹے وہ لا مکاں سے عبادت لیے ہوئے
آقا ہیں نور، نور علیٰ نور، نور گر
بشری لباس میں ملکیّت لیے ہوئے
روح الامیں بھی سدرہ سے آگے نہ جاسکے
سرکار پہنچے عرش پہ ہمت لیے ہوئے
یہ مہر و ماہِ ارض و سما ان کے دم سے ہیں
محبوبِ رب ہیں مرکزِ عظمت لیے ہوئے
واللیل والضحیٰ سے مراد ان کے زلف و رخ
والنجم فضلِ حق کی شہادت لیے ہوئے
قرآن خُلقِ پاک ہے میرے حضور کا
ہر قول و فعل ان کا ہے برکت لیے ہوئے
یوں معجزات اور رسولوں کو بھی ملے
سرکار آئے کوثر و کثرت لیے ہوئے
نسلِ رسول کو وہ فضیلت عطا ہوئی
ہے بچہ بچہ نورِِ ولایت لیے ہوئے
ہم پر کبھی نہ شرک کا الزام آئے گا
دل میں نبی کی گرچہ ہیں صورت لیے ہوئے
ہم عاصیوں کی ناؤ ترانے وہ آئیں گے
دامن میں موجِ بحرِ سخاوت لیے ہوئے
اے کاش موت آتی مدینے کی خاک پر
طیبہ سے لوٹے بس یہی حسرت لیے ہوئے
دوزخ طرف فرشتے مجھے لے چلیں گے جب
سرکار آہی جائیں گے رحمت لیے ہوئے
ہو موت و زندگی فقط اللہ کے لیے
زندہ رہیں رسول کی الفت لیے ہوئے
اچھے میاں کے در کی کرامت تو دیکھیے
دربان ہیں یہاں کے حکومت لیے ہوئے
احمد رضا کو فیض ہے آلِ رسول کا
زندہ ہیں آج تک وہ فضیلت لیے ہوئے
منکر نکیر قبر میں جب میری آئیں گے
اٹھ جاؤں گا درود کی عادت لیے ہوئے
یارب ہمیں ہو جذبہء احمد رضا عطا
زندہ رہیں نبی کی محبت لیے ہوئے
نظمی کے پاس اور تو کچھ بھی نہیں مگر
بیٹھا ہے خاندانی شرافت لیے ہوئے