رہزن کے پاس ہے نہ کسی رہنما کے پاس

رہزن کے پاس ہے نہ کسی رہنما کے پاس

ہر درد کی دوا ہے مِرے مُصطفٰؐے کے پاس


اسریٰ کی رات ذہن میں اُٹھتے ہیں یہ سوال

یہ کون جارہا ہے ملنے خُدا کے پاس


دِل تو ملے گا کُوچہء سرکار میں تُمہیں

آنکھیں ملیں گی تُم کو رُخِ والضحیٰ کے پاس


حاکؔم بجز حُضور کی چاہت کے باخدا

کچھ بھی نہ تھا لحد میں مُجھ بے نوا کے پاس

شاعر کا نام :- احمد علی حاکم

کتاب کا نام :- کلامِ حاکم

دیگر کلام

نعت کا ذوق ملا حرف کی جاگیر ملی

سوئی ہوئی تقدیر جگائیں مِرے آقا

میم والا گھنڈ پا کے سوہنا پاک محمد آیا

جس کو دیارِ عشق کی منزل نہیں قبول

قسم یاد فرمائی قرآں نے جن کی وہی تو مری زیست کے مدعا ہیں

مدحت گری میں اوجِ ہنر دیکھتا رہا

مہکی ہوئی من کی جو فضا

راستے صاف بتاتے ہیں کہ آپؐ آتے ہیں

پار لگ جائیں گے اک دن یہ سفینے آصف

وہ اپنے کردار کی زبانی