راتوں کی خلوتوں کا سکوں لاجواب ہے

راتوں کی خلوتوں کا سکوں لاجواب ہے

بے چین دل کا سوزِ دروں لاجواب ہے


کوئی تو پوچھے لطفِ فراقِ درِ حبیب

میں جھوم جھوم کر یہ کہوں ’’لاجواب ہے‘‘


کون و مکاں کی عقل میں وہ پختگی کہاں

شہرِ نبی سے میرا جنوں لاجواب ہے


رعنائ خیال و سکونِ دل و نظر

مدحِ نبی سے روز فزوں لاجواب ہے


سہ سالہ شعب ہو یا ہو میدانِ کربلا

اس نسل میں ہر ایک کا خوں لاجواب ہے


بد قسمتی ہے اِس سے نکلنے کا سوچنا

شوقِ درِ نبی کا فسوں لاجواب ہے


حُسنِ کلام مدحتِ خیر الانام ہے

کب شاعری ثناء کے بدوں لاجواب ہے؟


سن کر تمہاری نعت تبسم تِرے نبی

ابرو اٹھا کے بولیں کہ "ہوں لاجواب ہے"