رُخِ پر نور پر زیرِ جبیں سرکار کی آنکھیں

رُخِ پر نور پر زیرِ جبیں سرکار کی آنکھیں

دو عالم میں حسیں تر ہیں شہِ ابرار کی آنکھیں


شبِ ہجرت گئے آقاؐ عدو کے درمیاں سے اور

نبیؐ کی راہ تکتی رہ گئیں کفار کی آنکھیں


منافق کو درِ آقاؐ کی عظمت کیا نظر آئے

عقیدت کی نظر رکھتی نہیں اغیار کی آنکھیں


رُخِ سرور ہے مثلِ آئینہ پھر دیکھتیں کیسے

نبیؐ کے حسن کو بوجہل سے عیار کی آنکھیں


بہارِ موسمِ رحمت لیے آقاؐ ہیں جلوہ گر

ہوائیں چومتی ہیں احمدِ مختار کی آنکھیں


نگاہِ حق شناسی سے لقب صدیق کا پایا

نرالی شان کی حامل تھیں یارِ غار کی آنکھیں


مدینے سے دیارِ شام تک جو دیکھ سکتی ہیں

وہ ہیں فاروق جیسے قافلہ سالار کی آنکھیں


سخاوت کی صفت پنہاں اگر تھی دستِ عثماں میں

حیا پیکر تھیں دامادِ شہِ ابرار کی آنکھیں


تجلیِ نظر سے خاک کر دیتی تھیں پل بھر میں

دلِ اعدائے دیں کو حیدرِ کرّار کی آنکھیں


سرِ شبیر تھا محوِ تلاوت نوکِ نیزہ پر

یہ منظر دیکھ کر حیران تھیں اشرار کی آنکھیں


دکھا دے چشمِ احسؔن کو خدایا منظرِ طیبہ

ہیں کب سے منتظر دیدِ درِ سرکار کی آنکھیں

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

کوئی حسین شاہ کے جواب میں، نہیں نہیں

رحمتاں دا تاج پا کے رُتبے ودھا کے

روشن ہے مرے خواب کی دُنیا مرے آگے

اعمال بھی ہمارے کسی کام کے نہیں

کونین میں وُہ شمع جلائی حضورؐ نے

چلو دامن میں بھر لائیں کرم کوئے پیمبر سے

دھرم کرم سے کئی گنا ہے بڑھ کر پریم کا مرم(

ایسا کوئی محبوب نہ ہو گا نہ کہیں ہے

چلو عاصیو غمزدو سب مدینے

نبی تے شام سویرے درود پڑھیا کر