سر بلندی کی روایت سرکٹا نے سے چلی

سر بلندی کی روایت سرکٹا نے سے چلی

نبض ایماں تیری نبضیں ڈوب جانے سے چلی


گھر سے تجھ کو کر بلا کی سمت جاتا دیکھ کر

ابر اُٹھا صحرا سے بجلی آشیانے سے چلی


خون سے تو نے بنایا راستہ سچائی کا

آدمیت حق کی راہوں پر چلانے سے چلی


نذرِ دیں جاں ہی نہیں سب لخت جاں بھی کردیے

رِیت یہ تجھ سے چلی تیرے گھرانے سے چلی


آنے والا لمحہ تیری بیعت کر چکا

بات تیری از سرِ نو ہر زمانے سے چلی


میں محمد کا غلام آلِ محمد کا غلام

اپنی ہر تصویر اِس آئینہ خانے سے چلی


تو نے معنی ہی بدل ڈالے شکست و فتح کے

رسم ہستی اپنی ہستی کو مٹانے سے چلی


زندگی مومن کی ہوتی ہے مظفر ؔامتحاں

کشتی اسلام گردابوں میں آنے سے چلی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- نورِ ازل

دیگر کلام

خوش نصیب مدینے بلائے جاتے ہیں

بے شک، ہیں بہت، کم نہیں احسانِ مدینہ

مجھ پہ بھی چشم کرم اے مِرے آقا! کرنا

نگاہِ مہر جو اس مہر کی اِدھر ہوجائے

چاند اُلجھا ہے کھجوروں کی گھنی شاخوں میں

آسمانِ نعت پر جس وقت آیا قافیہ

تڑپدے رات دن رہنا تے اشکاں دی روانی ایں

لاریب حضور دی ذات

یاد جدوں آئی طیبا دی

رہتا ہوں تصور میں مَیں