سروں پہ غم کے تنے ہیں بادل

سروں پہ غم کے تنے ہیں بادل،مُصیبتوں میں گِھرے ہوئے ہیں

نکالیں آقا ! ہمیں خُدارا کہ دلدلوں میں دھنسے ہوئے ہیں


وہ پہنچے معراج میں جو اقصٰی ، وہاں کا منظربھی دیدنی ہے

کہ انبیا و رُسُل وہاں پر ، صفوں میں سارے کھڑے ہوئے ہیں


بحورِ عصیاں کی تُند موجیں ، سفینے سب کے ڈبو رہی ہیں

حضور دیں گے اُنہیں سہارا، بھنور میں جو بھی پھنسے ہوئے ہیں


دیارِ بطحا سے آنے والے ہر ایک زائر کا حال یہ ہے

پلٹ تو آئے وطن کو اپنے پہ دل وہیں پر لگے ہوئے ہیں


یہ ماہِ میلاد جوں ہی آیا ، زمانے بھر میں ہوا اُجالا

یہ اُن کی آمد کی ہے نشانی ، یہ بام و در جو سجے ہوئے ہیں


وہاں پہ گزرے ہر ایک لمحے پہ ناز کرتے ہیں شاہِ دنیا

ہیں خوش مُقدّر فقیر اُن کے جو اُن کے در پر پڑے ہوئے ہیں


اگرچہ ہم بے عمل ہیں لیکن، جلیل اُن کا کرم ہے ہم پر

کہ پتّھروں کے عذاب سے ہم اُنہی کے صدقے بچے ہوئے ہیں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- لمعاتِ مدحت

دیگر کلام

ٹھہرو ٹھہرو رہ جاؤ یہیں کیوں طیبہ نگر سے دور چلے

جلوہ گر کونین میں آقا کی طلعت ہو چکی

آج بھی پلکوں پہ لرزاں ہجر کا تلخاب ہے

نہ ختم ہو سکی ہمارے دل سے

سعادت اب مدینے کی عطا ہو

بشر کی حرمت حضورؐ سے ہے

خُلق جن کا ہے بہارِ زندگی اُن پر سلام

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

جب محشر میں پہنچوں گا میں عصیاں کا انبار لیے

ہادیا تاجدار مدینے دیا سوہنا کوئی نہ تیرے جیہا ویکھیا