سینے میں گر ہمارے قرآن ہے تو سب کچھ

سینے میں گر ہمارے قرآن ہے تو سب کچھ

یعنی سکوں کی دولت ایمان ہے تو سب کچھ


فرمانِ کبریا کا، فرمانِ مصطفی کا

بندوں کو گر میسّر عرفان ہے تو سب کچھ


سب کو کہاں میسّر انسانیت کا تمغہ

فضلِ خدا سے اچھا انسان ہے تو سب کچھ


بھاگو نہ اِس کے پیچھے دنیا میں کیا رکھا ہے

ایماں پہ خاتمے کا امکان ہے تو سب کچھ


کوئی حقیر سمجھے، کوئی فقیر سمجھے

نظروں میں رب کے بندہ ذیشان ہے تو سب کچھ


رب سے کیا تھا وعدہ، روزِ الست ہم نے

قائم وہ رب سے اپنا، پیمان ہے تو سب کچھ


رزقِ حلال لاؤں بچوں کو میں کِھلاؤں

ایسا خیال ایسا ارمان ہے تو سب کچھ


کوئی ارب پتی ہو، یا چوہدری جہاں کا

آقائے دوجہاں کا دربان ہے تو سب کچھ


یہ مال و زَر ہمارا، اہل و عیال اپنے

محبوبِ رب پہ طاہرؔ قربان ہے تو سب کچھ