شفیع الوریٰ تم سلامٌ علیکم

شفیع الوریٰ تم سلامٌ علیکم

رضائے خدا تم سلامٌ علیکم


کہیں ابتدا تم کہیں انتہا تم

خیالوں کی حد سے وریٰ الوریٰ تم


سحابِ کرم شانِ جود و سخا تم

مِرا مُدّعا تم ، مری ہر دُعا تم


شفیع الوریٰ تم سلامٌ علیکم

رضائے خدا تم سلامٌ علیکم


عداوت پُرانی دلوں سے مٹائی

بُروں سے بھی کی تو نے ہر دم بھلائی


عجب شان کی تھی تری مصطفائی

شکم پر تو پتھر لبوں پر تبسم


شفیع الوریٰ تم سلامٌ علیکم

رضائے خدا تم سلامٌ علیکم


پیاسوں کو خوں کے اماں دینے والے

شجر کی حجر کو زباں دینے والے


یہاں دینے والے وہاں دینے والے

سخاوت کا دریا ہو بحرِ عطا تم


شفیع الوریٰ تم سلامٌ علیکم

رضائے خدا تم سلامٌ علیکم


تری معرفت میں کہاں لب کشائی

کہ تیرے ہی جلوے ہیں ساری خدائی


فقط عشق کی تیرے در تک رسائی

کہ دانائیاں تیری راہوں میں ہیں گم


شفیع الوریٰ تم سلامٌ علیکم

رضائے خدا تم سلام ٌ علیکم


نگا ہوں میں رحمت کے دریا تمہارے

غلام آج کیا چاہتے ہیں تمہارے


تمہاری نگاہِ کرم کے سہارے

ادیبِؔ خطا کار پر بھی ترحم


شفیع الوریٰ تم سلامٌ علیکم

رضائے خدا تم سلامٌ علیکم

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

دیگر کلام

کریم اپنے کرم کا صدقہ ضرور دیں گے ضرور دیں گے

حشر میں سارے نبیوں کے آئے نبی

میرے مولا میرے سروَر رحمۃٌ لِّلْعالمیں

عشقِ نبیؐ میں آہ پہ مجبور ہوگیا

توں سمجھیں معراج نوں فسانہ ترا ایہہ ناقص خیال کی اے

مُقدّر کے دھنی ہیں وہ ، مدینے میں جو مرتے ہیں

نگاہیں رہ میں بچھا دو کہ آپؐ آئے ہیں

ہجومِ رنگ ہے میری ملول آنکھوں میں

جو عمر بھر کِسی چوکھٹ پہ سر جھکا نہ سکے

خالی کبھی ایوانِ محمدؐ نہیں رہتا