شاخِ ارمان درِ نور سے لف دیکھتے ہیں

شاخِ ارمان درِ نور سے لف دیکھتے ہیں

غمزدہ لوگ مدینے کی طرف دیکھتے ہیں


اپنی خوش فہمیِ طلعت پہ ہوئے خوب خجل

مہر و مہ جب ترے تلووں کی طرف دیکھتے ہیں


تشنہ لب بھول گئے پیاس کی شدت یکسر

حوض پر آپ کو جب جام بکف دیکھتے ہیں


شاہِ والا کو خبر ہے مری بے تابی کی

وہ تو سینے میں دھڑکتا ہوا دف دیکھتے ہیں


اس کے دیدار سے رہتی ہے ہری شاخِ مراد

رنگ و نکہت کے لئے سبز صدف دیکھتے ہیں


اس کو زر ناب بنا دیتے ہیں پارس فطرت

اپنے قدمین میں جب کوئی خذف دیکھتے ہیں


لوگ ناعت کا لقب دیتے ہیں اشفاق تجھے

جب ترا مدحتِ سرور سے شغف دیکھتے ہیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

پنجابی ترجمہ: نسِیما جانبِ بَطحا گذر کُن

نِشاطِ زندگانی تیرا غم ہے یارسول اللہ

جو روشنی مدینے کے دیوار و دَر میں ہے

دلوں کے انگناں چڑھی ہے رنگناں ہیں پھول مہکے بہار کے

آپؐ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے

محبوب خدا ایک نظر دیکھنے آئے

میرے سجنو دُعا منگو

خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا

نبی کا روضہء اقدس جہاں ہے

میں فنا اندر فنا ہوں تُو بقا اندر بقا