شوقِ طیبہ میں بے قرار ہے دل

شوقِ طیبہ میں بے قرار ہے دل

گُنبدِ سبز پر نثار ہے دل


اِس پہ فُرقت کی ہے خزاں چھائی

شاہ سے طالبِ بہار ہے دل


مجھ کو بُلوائیے مدینے میں

غم کی رکھتا نہیں سہارہے دل


اُن کی یادوں سے جو مزیّن ہو

نوری نوری ہے باوقار ہے دل


چھوڑ سب کُچھ درِ رسول پہ چل

مجھ سے کہتا یہ بار بار ہے دل


چشمِ رحمت ہو تو نکھر جائے

جُرمِ عصیاں سے داغ دار ہے دل


بائیں جانب ہے مرقدِ آقا

اِس لئے کہ یہی مزار ہے دل


اِس کو سلطانِ جسم کہتے ہیں

رب کی رحمت کا شاہکار ہے دل


قلبِ مرزا میں آئیے آقا

کب سے یہ محوِ انتظار ہے دل

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

جس سے ضیا طلب ہے ترا ماہتاب چرخ

اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

لب دے اُتے نام نبی دا دل وچ یاد نبی دی

ساڈے آقا کملی والے دی گفتار دے چرچے گلی و گلی

عمل سب سے بڑا طاعت حبیبِ ِکبریا کی ہے

مجھے ہر سال تم حج پر بلانا یارسولَ اللہ

حاجیوں کے بن رہے ہیں قافِلے پھر یانبی

روز عاشور کی یہ صبح عبادت کی گھڑی

سرورِ دین و شہنشاہ اُمم

نبیؐ کو مظہرِ شانِ خدا کہیے، بجا کہی