سناؤں کسے اَور جا کر میں دردِ نہاں ربِ کعبہ

سناؤں کسے اَور جا کر میں دردِ نہاں ربِ کعبہ

اٹھون تیرے در سے تو پھر اَور جاؤں کہاں ربِ کعبہ


تجھے واسطہ تیرے محبوبؐ کا ہے کرم کر کرم کر

تجھے تو خبر ہے کہ ہے سخت مشکل میں جاں ربِ کعبہ


علالت بدن کی ہے اپنی جگہ ، فکر بھی ہے پریشاں

ہوا سانس لینا بھی اب تو نہایت گراں ربِ کعبہ


اک آشوب ِ ذات ، ایک آشوبِ ملّت میں دم گھٹ رہا ہے

بنا ان پہ آشوبِ عالم کڑا امتحاں ربِ کعبہ


فشار ان کے اندر ہے ، باہر سے ہے سخت یلغارِ باطل

بڑی تلخ ہے اہلِ اسلام کی داستاں ربِ کعبہ


نہیں ہے کسی امتحاں کے بھی قابل، نہ ہے اس کو صبِر حسن ہی کا یارا

یہ تائب ہے نا چیز اَور اک ترا بندۃ نا تواں ربِ کعبہ

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزو ئے نبیؐ رہی

اے رسولِ ذی وقارؐ مرحبا

رحمتوں کا گر خزانہ چاہئے

کاش! دشتِ طیبہ میں ،میں بھٹک کے مرجاتا

ہادئ پاک و خیر البشر آپؐ ہیں

پھیلا ہوا ہے دہر میں مدحت کا سلسلہ

دلوں کے انگناں چڑھی ہے رنگناں ہیں پھول مہکے بہار کے

شرف حاصل ہے دیدارِ شہ ِ لولاک کرنے کا

ہو اگر مدحِ کف پا سے منور کاغذ

لگا رہی ہے صدا یوں صبا مدینے میں