سناؤں کسے اَور جا کر میں دردِ نہاں ربِ کعبہ
اٹھون تیرے در سے تو پھر اَور جاؤں کہاں ربِ کعبہ
تجھے واسطہ تیرے محبوبؐ کا ہے کرم کر کرم کر
تجھے تو خبر ہے کہ ہے سخت مشکل میں جاں ربِ کعبہ
علالت بدن کی ہے اپنی جگہ ، فکر بھی ہے پریشاں
ہوا سانس لینا بھی اب تو نہایت گراں ربِ کعبہ
اک آشوب ِ ذات ، ایک آشوبِ ملّت میں دم گھٹ رہا ہے
بنا ان پہ آشوبِ عالم کڑا امتحاں ربِ کعبہ
فشار ان کے اندر ہے ، باہر سے ہے سخت یلغارِ باطل
بڑی تلخ ہے اہلِ اسلام کی داستاں ربِ کعبہ
نہیں ہے کسی امتحاں کے بھی قابل، نہ ہے اس کو صبِر حسن ہی کا یارا
یہ تائب ہے نا چیز اَور اک ترا بندۃ نا تواں ربِ کعبہ
شاعر کا نام :- حفیظ تائب
کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب