ترا جمال تصور میں آنہیں سکتا

ترا جمال تصور میں آنہیں سکتا

کوئی بھی تیری حقیقت کو پا نہیں سکتا


جو ایک بار پکارے تمہاری رحمت کو

ترے کرم سے وہ دامن چھڑا نہیں سکتا


کمالِ قربِ خدا ہے مقامِ ’’اَوْاَدْنیٰ‘‘

جہاں کسی کا تخیل بھی جا نہیں سکتا


غمِ حضورؐ سے نسبت جسے بھی حاصل ہے

جہاں کی رونقیں دل میں بسا نہیں سکتا


ترے غلام تو آقاؐ وہ نقشِ روشن ہیں

زمانہ مل کے بھی جن کو مٹا نہیں سکتا


اے پردہ پوش نبیؐ آپ ہی بھرم رکھیے

کسی کے سامنے کاسہ بڑھا نہیں سکتا


تمہارے ذکر سے دل جس طرح مہکتاہے

وہ کیف و سوز کا عالم بتا نہیں سکتا


ترے کرم کی عدالت میں ایک مجرم ہے

شکیلؔ آپ سے نظریں ملا نہیں سکتا

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

لُطفِ خیرالانام جب ہوگا

ہُوا جو اہلِ ایماں پر وہی احسان باقی ہے

شرماؤندے او کیوں طیبہ دی سرکار توں منگدے

یارب رواں یہ سانس کی جب تک لڑی رہے

ہے مدحِ نعلِ شاہ کے زیرِ اثر دماغ

محمد مصطفی آئے ہجر سج گئے شجر سج گئے

وہ حسنِ مجسّم نورِ خدا نظروں میں سمائے جاتے ہیں

نور والا آیا ہے ہاں نور لیکر آیا ہے

جنہیں خلق کہتی ہے مصطفیٰ

پہنچا ہوں روبروئے حرم صاحبِ حرم