تم بات کروہو نہ ملاقات کرو ہو

تم بات کروہو نہ ملاقات کرو ہو

بس ایک نجر میں دل گھات کرو ہو


جو راہیں تیرے دیس کو نہ جاویں ہیں ویران

جس رُخ بھی گزر جاؤ بارات کرو ہو


بیٹھے ہیں سبھی سیج سجائے تیرے کارن

معلوم نہیں کس سے ملاقات کرو ہو


دنیا تیرے مانگت کی بھکارن ہے مہاراج

جس کو بھی تکو تم تو سوغات کرو ہو


راتوں کو کھُلے رکھتی ہوں اکھین کے دریچن

کب رات کے جھرنوں سے اِک جھات کرو ہو


تلوار کی حاجت ہو بھلا تم کو تو کیوں کر

نینن کی کن اکھین سے جگ مات کرو ہو


کتنے ہی لگے پھرتے ہیں ساجن تیرے مانگت

جس پہ بھی جیا آئے نواجات کرو ہو


جو نیست تھی تکنے سے تیرے ہو گئی ہستی

گر نظر ہٹا لو تو قیامات کرو ہو


رُت پریم کے گیتوں کی کبھو بیت چُکی طاہر

اس اُجڑی نگریا میں کیا بات کرو ہو


اس بہری نگریا میں کیا بات کرو ہو

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

ہوں دامن میں انبار بھی گر عمل کے

بھرے ہیں گھاؤ مرے جب

ہر آن ملی سب کو دوا میرے نبی سے

سرکار کی نگاہ بھی کیا لا جواب ہے

پڑھ کر درودِ پاک ، ثنا کی طرف گیا

شمس و قمر نجوم کی تنویر کچھ نہ تھی

دریائے ہجر میں ہے سفینہ تِرے بغیر

نعت گو ہے خدا نعت خواں آسماں

اے شہ شاہان رسل السلام

یوں تو ہر دَور مہکتی ہوئی نیند یں لایا