وابستہ ہو گئے ہیں تِرے آستاں سے ہم
آنکھیں ملا سکیں گے اب اس آسماں سے ہم
جب تک گزر نہ جائیں شہا جسم و جاں سے ہم
روتے رہیں لپٹ کے ترے آستاں سے ہم
ہوگا نظارہ گنبدِ خضرا کا بعد میں
پہلے وضو بنائیں گے اشکِ رواں سے ہم
بے مثل ہے سماعتِ آقائے دو جہاں
سن لیں وہاں سلام جو بھیجیں یہاں سے ہم
سرکارکے کرم سے نہائیں گے مشک میں
گزریں گے ان کے کوچہءِ عنبر فشاں سے ہم
ملکِ سخن کے شاہ کی گلیاں چلو چلیں
لائیں کمالِ مدحتِ آقا وہاں سے ہم
آقا ! ہےشعر جیسا بھی کر لیجئے قبول
واقف نہیں ہیں حسنِ زبان و بیاں سے ہم
ہے عشق میں بھی شرک سے نفرت ہمیں شفیقؔ
دنیا نکال پھینکے ہیں دل کے مکاں سے ہم
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا