وجد میں شاہ اگر ہے تو گدا کیف میں ہے

وجد میں شاہ اگر ہے تو گدا کیف میں ہے

ہر کوئی دیکھ کے آقا کی عطا کیف میں ہے


شبِ اسریٰ کی شہا ! ساری فضا کیف میں ہے

چوم کے، چرخِ کہن آپ کے پا، کیف میں ہے


مست و بے خود سی چلی بابِ اجابت کی طرف

سُن کے نامِ شہِ کونین دعا کیف میں ہے


عشقِ سرکار میں ڈوبی ہوئی نعتیں سن کر

محفلِ نعتِ شہنشاہِ ھُدا کیف میں ہے


زائرو ! پوچھتے کیا ہو مِرے دل کا عالم

دیکھ کر گنبدِ خضرا کی فضا کیف میں ہے


آسماں وجد میں ہے چوم کے پائے اقدس

’’چھو کے نعلینِ کرم غارِ حرا کیف میں ہے‘‘


ایسا لگتا ہے مدینے کی طرف سے آئی

مست و بےخود ہے ابھی بادِ صبا کیف میں ہے


دیکھ کر شانِ شفاعت شہِ ذی شاں کی شفیقؔ

وجد میں ہیں مِرے عصیاں تو خطا کیف میں ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- قصیدہ نور کا

دیگر کلام

دشمنوں نے لاکھ کیں گستاخیاں سرکار کی

ریاضت پر، قیادت پر، تکلم پر، تبسم پر

جب سے ہمارے ہاتھوں میں دامانِ نعت ہے

مِرے دل میں یادِ شہِ اُمم مِرے لب پہ ذکرِ حبیب ہے

مٹانے شرک و بدعت سرورِ کون و مکاں آئے

وجد میں شاہ اگر ہے تو گدا کیف میں ہے

ہر طرف گونجی صدا جشنِ ربیع النور ہے

باعثِ رحمتِ ایزدی نعت ہے

محبت فخر کرتی ہے عقیدت ناز کرتی ہے

دماغ ہوتا ہے روشن، دہن مہکتا ہے

اضطراب کی رُت ہے بے کلی کا موسم ہے