وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو
یہ اور بات ہمی نے انہیں ؐ پکارا نہ ہو
خدا نے آپؐ کو دُنیا میں اس لئے بھیجا
مصافِ زیست میں انسان بے سہارا نہ ہو
وہ دُشمنوں سے بھلا انتقام کیا لیتے
ستمگروں پہ بھی جِن کو ستم گوارا نہ ہو
وہ آج شہرِ سکوں ہے‘ جہاں پہ آقاؐ نے
کبھی سکُون کا اک لمحہ بھی گزارا نہ ہو
تمام عُمر خدائی سے پیار میں گزری
خدا کے بندوں کا پیارا خدا کو پیارا نہ ہو
حضُورؐ ایسے بھی مہجور پر کرم کہ جسے
سفر کا شوق ہو لیکن سفر کا یارا نہ ہو
حنیفؔ میں بھی کروں اب کے اہتمامِ سفر
کہیں اُدھر سے مری سمت بھی اشارا نہ ہو