یانبی! بس مدینے کا غم چاہئے
کچھ نہیں اور رب کی قسم چاہئے
میرا سینہ مدینہ بنا دیجئے
چاک قلب و جگر چشمِ نم چاہیے
بس مدینے کی یادوں میں کھویا رہوں
فکر ایسی شہِ محترم چاہیے
یاد میں تیری روتا تڑپتا رہوں
ایسا غم تاجدارِ حرم چاہیے
تاجِ شاہی نہ دو، بادشاہی نہ دو
بس تمہاری نگاہِ کرم چاہیے
میرے جینے کا سامان ہے بس یِہی
تیرا لُطف و کرم دم بدم چاہیے
آتَشِ شوق آقا بھڑکتی رہے
مجھ کو غم یانبی تیرا غم چاہیے
جاں بَلَب کے سِرہانے اب آجایئے
جامِ دیدار شاہِ حرم چاہیے
تیرے قدموں میں موت اے حبیب خدا!
اے شَہَنشاہِ عَرَب و عَجَم چاہیے
دیدو آقا بقیعِ مبارَک مجھے
کچھ نہیں اور شہِ محترم چاہیے
مغفِرت کی تمہارے کرم سے مجھے
اب سند یاشفیعِ اُمَم چاہیے
سارے دیوانے آقا مدینے چلیں
اِذن طیبہ کا شاہِ امم چاہیے
تیرا سرکار ہوں گرچِہ بدکار ہوں
تیری رَحمت مجھے ہر قدم چاہیے
چھوڑیں عاداتِ بد بھائیو! موت کی
یاد ہر آن اور دم بدم چاہئے
جو بھی سرکار پڑھ لے ہمارا کلام
وہ تڑپ اٹّھے ایسا قلم چاہئے
گر وہ فرمائیں عطارؔ مانگو بھلا!
میں کہوں گا’’مدینے کا غم چاہئے‘‘
شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری
کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش