یا رب بسا کے بیٹھا ہوں دنیائے آرزو

یا رب بسا کے بیٹھا ہوں دنیائے آرزو

دیدارِ شہرِ نور کی بر آئے آرزو


کب دیکھیے پڑے گی نگاہِ شہِ اُمم

گلزار کب بنے گا یہ صحرائے آرزو


کب تک حضور دل میں رہے آرزوئے دید

صورت ہو کوئی ایسی کہ بر آئے آرزو


بلوا کے اپنے در پہ اسے سرخرو کریں

ایسا نہ ہو کہ دل میں ہی رہ جائے آرزو


نشّہ ہو جس میں عشقِ رسولِ انام کا

دل چاہتا ہے بس وہی صہبائے آرزو


دیکھا جو میں نے قافلۂ عازمینِ حج

دل کے چمن میں کِھل اُٹھے گلہائے آرزو


سرکار کا دیار کہاں اور کہاں شفیقؔ

کہدو زیادہ پائوں نہ پھیلائے آرزو

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

جب کیا میں نے قصدِ نعت حضورؐ

مسلماں اُن کے گھر سے جو وفا کرتا نظر آیا

رحمتاں دا تاج پا کے رُتبے ودھا کے

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں

اُس نے چھوڑا نہ کسی حال میں تنہا مجھ کو

مدینے والے دے در دے اُتے دِلاں دی ایسی اے تار ملدی

ان کی رحمت کا سہارا مل گیا

سرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے

ذکرِ سرکارؐ سے جب ذہن ترو تازہ ہو