یا رب مجھے بُلانا دربارِ مصطفیٰ میں

یا رب مجھے بُلانا دربارِ مصطفیٰ میں

ہو میرا آشیانہ دربارِ مصطفیٰ میں


بن کر فقیر دیکھو شاہ و گدا کھڑے ہیں

سب کا ہے آب و دانہ دربارِ مصطفیٰ میں


دن رات آرہے ہیں رب کے ملائکہ بھی

منظر ہے کیا سُہانہ دربارِ مصطفیٰ میں


دل سے صدا ہے نِکلی آتا رہوں ہمیشہ

جس کا ہُوا ہے جانا دربارِ مصطفیٰ میں


ہر آن رحمتوں کی خیرات بٹ رہی ہے

آتا ہے اِک زمانہ دربارِ مصطفیٰ میں


جآوُک ہے خدا کا فرمان کتنا پیارا

اے عاصیوں تُم آنا دربارِ مصطفیٰ میں


گُنبد ہرا ہے دل کش مینار بہتریں ہیں

نوری ہے شامیانہ دربارِ مصطفیٰ میں


آجاؤ غم کے مارو دُکھیارو تم جو چاہو

رنج و الم مِٹانا دربارِ مصطفیٰ میں


وہیں دم یہ ٹوٹ جائے طیبہ کی سرزمیں ہو

میرا آخری ٹھکانہ دربارِ مصطفیٰ میں


یارب یہ التجاء ہے مرزا کو موت آئے

ہے عرضِ عاجزانہ دربارِ مصطفیٰ میں

شاعر کا نام :- مرزا جاوید بیگ عطاری

کتاب کا نام :- حروفِ نُور

دیگر کلام

عاصیاں او گنہاراں اُتے رب نے کرم کمایا اے

تو ہی

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار

ادب گاہِ دوعالم ہے یہاں دستک نہیں دیتے

ابتدائے نعت کا جب تکمِلہ ہوجائے گا

مدینہ ونجف و کربلا میں رہتا ہے

روز محشر سایہ گستر ہے جودامان رسولﷺ

دو جگ دا سلطان مدینے والا اے

میں لاکھ برا ٹھہرا یہ میری حقیقت ہے

سنا نبی سے جو قرآن کے ترانے کو