یاد آتے ہیں مدینے کے اُجالے مجھ کو

یاد آتے ہیں مدینے کے اُجالے مجھ کو

دوسری بار مدینے میں بلا لے مجھ کو


میں ترےؐ در کے غلاموں کی غلامی میں رہوں

غیر کے در کی غلامی سے بچا لے مجھ کو


حاضری کی ہے تمنا مرے دل میں کب سے

کہنا تقدیر سے اس بار نہ ٹالے مجھ کو


شدتِ پیاس نے بے تاب کیا ہے آقاؐ

دیجئے کوثر و زم زم کے پیالے مجھ کو


گہری دلدل ہے گناہوں کی مرے چاروں طرف

میرا آقاؐ ہی نکالے تو نکالے مجھ کو


ہو گا چھٹکارا اگر آپؐ کرم فرمائیں

بارِ عصیاں نے کیا غم کے حوالے مجھ کو


میں ہوں ملتان کی گرمی سے پریشان بہت

سایہء گنبدِ خضریٰ میں بلا لے مجھ کو


ان کی غمخوار طبیعت سے جہاں واقف ہے

آپ گردش میں نہیں چھوڑنے والے مجھ کو


میں ثناء گو ہوں زمانے کی ہوا سے کہہ دو

خواہشِ زر کی مصیبت میں نہ ڈالے مجھ کو


در پہ رہنے دے ، مجھے در پہ پڑا رہنے دے

اپنے دربار کا دربان بنا لے مجھ کو


خوف محشر کا ہے ہر وقت مسلط مجھ پر

کالی کملی کی پناہوں میں چھپا لے مجھ کو


یانبیؐ یانبیؐ کہتا پھروں گلیوں ، گلیوں

اُنؐ کا دیوانہ کہیں دیکھنے والے مجھ کو


تیرا اشفاقؔ مدینے کے لئے بے کل ہے

مستقل شہرِ مدینہ میں بسا لے مجھ کو

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ خلد

دیگر کلام

بن گئی بات میرے عالم تنہائی کی

عشق ہے فسِق چشمِ نم کے بغیر

مدینہ جائے قرا رِجاں ہے مدینہ مسکن ہے راحتوں کا

بار بار آپ جو سرکارؐ بلاتے جاتے

پیغامِ حق سنانے سرکار آرہے ہیں

تم ہو شہِ دوسرا شاہِ عرب شاہِ دیں

ظُلمتوں نے غُبار ڈالا ہے

ما سوا اک آستاں کے آستاں کوئی نہ ہو

محبُوبِ کردگار ہیں آقائےؐ نامدار

مرے آقا میری بگڑی بنا دے