یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو

یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو

پڑھ کر نبی کی نعت لحد میں اتار دو​


دیکھا ابھی ابھی ہے نظر نے جمال یار

اے موت مجھ کو تھوڑی سی مہلت ادھار دو


سنتے ہیں جانکنی کا ہے لمحہ بہت کٹھن

لے کر نبی کا نام یہ لمحہ گزار دو


گر جیتنا ہے عشق میں لازم یہ شرط ہے

کھیلو اگر یہ بازی تو ہر چیز ہار دو۔


یہ جان بھی ظہوری نبی کے طفیل ہے

اس جان کو حضور کا صدقہ اتاردو

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

اپنے محبوب کے ،عِشق میں ڈوب کے

لج پال سخی دے در آئیاں اک نظر کرم دی کر سائیاں

صاحبّ التّاج وہ شاہ معراج وہ

مالک کہوں کہ صاحبِ رحمت کہوں تجھے

کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں

جب لگا آنکھ میں موسم ذرا صحرائی ہے

جب تصور میں کبھی گنبد ِ خضراء دیکھوں

میرے دل کی دھڑکنوں سے گفتگو کرتے ہیں آپؐ

انوار محمد عربی دے جد جلوہ گر ہو جاندے نیں

جِتھوں جگ رُشنائی لیندا اے جتھے فجر تمام نہ ہوندی اے