پھر پیش نظر سید عالم کا حرم ہے
یہ رب محمد کی عنایت ہے، کرم ہے
پھر لب پہ مرے ذکرِ شہنشاہِ اُمم ہے
پھر زیر قدم عظمتِ اسکندر و جم ہے
طیبہ کا سفر مرحلہ خوف و رجا ہے
ہونٹوں پہ تبسم ہے، مگر آنکھ تو نم ہے
انساں کی قبا رنگ الہی سے مزین
یہ اُن کا کرم اُن کا کرم، اُن کا کرم ہے
ہر صاحب ایمان کی دھڑکن میں محمد ﷺ
اُس ذات سے دوری کا تصور بھی ستم ہے
انسان کی وحدت ہے محمد کا کرشمہ
اس بزم میں تفریق عرب ہے نہ عجم ہے
وحشت کا ہر اک نقش بنا جلوہ تہذیب
رو داد یہ دیوار تمدن پر رقم ہے
کشفی کے لئے نعت ہے تابوت سکینہ
سرکارِ دو عالم کے سوا کس کا کرم ہے
شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی
کتاب کا نام :- نسبت