پھر پیش نظر سید عالم کا حرم ہے

پھر پیش نظر سید عالم کا حرم ہے

یہ رب محمد کی عنایت ہے، کرم ہے


پھر لب پہ مرے ذکرِ شہنشاہِ اُمم ہے

پھر زیر قدم عظمتِ اسکندر و جم ہے


طیبہ کا سفر مرحلہ خوف و رجا ہے

ہونٹوں پہ تبسم ہے، مگر آنکھ تو نم ہے


انساں کی قبا رنگ الہی سے مزین

یہ اُن کا کرم اُن کا کرم، اُن کا کرم ہے


ہر صاحب ایمان کی دھڑکن میں محمد ﷺ

اُس ذات سے دوری کا تصور بھی ستم ہے


انسان کی وحدت ہے محمد کا کرشمہ

اس بزم میں تفریق عرب ہے نہ عجم ہے


وحشت کا ہر اک نقش بنا جلوہ تہذیب

رو داد یہ دیوار تمدن پر رقم ہے


کشفی کے لئے نعت ہے تابوت سکینہ

سرکارِ دو عالم کے سوا کس کا کرم ہے

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

یہ ایک نام سکینہ بھی ہے نجات بھی ہے

ستاروں کا یہ جُھرمٹ

لوائے حمد اُن کے ہاتھ میں ہو گا

یہ سلسلہ صدق و صفا کس سے ملا ہے؟

ظلمت نے چراغ اپنے بجھائے تو ہیں لیکن

پھر پیش نظر سید عالم کا حرم ہے

ٹوٹے دلوں کو صبر و شکییائی دے گیا

میرے سجدوں کے نشان اُن کی عطا میں شامل

ذہن کو اپنے سجالوں تو ترا نام لکھوں

جاده عشق محمد ﷺ کا تسلسل دیکھو

ایسے عاصی بھی ہیں جو تاب نظر رکھتے ہیں