ذہن کو اپنے سجالوں تو ترا نام لکھوں

ذہن کو اپنے سجالوں تو ترا نام لکھوں

اپنے لمحوں کو اُجالوں تو ترا نام لکھوں


شہر طیبہ میں گزاری ہوئی ہر ساعت کی

یاد کو دل میں بسالوں تو ترا نام لکھوں


گنبد سبز کے سائے میں وہ صدیوں کا خرام

اُس کی تصویر بنا لوں تو ترا نام لکھوں


روضہ پاک کے نظارے کو نغمے کی طرح

روح کے ساز گالوں تو ترا نام لکھوں


پیرے مولا ! تری کملی سے اُبھرتا سورج

اُس کو آئینہ بنالوں تو ترا نام لکھوں


حضرت سید اکبر کی وفا کا نغمہ

آج دنیا کو سنا لوں تو ترا نام لکھوں


صاحب عدل کہ فاروق بنایا حق نے

ان کو الفاظ میں ڈھالوں تو ترا نام لکھوں


جامع حرف الہی پہ درود اور سلام

اپنے آنسو کو سنبھالوں تو ترا نام لکھوں


تیری برکت سے منور ہوئیں جن کی آنکھیں

اُن کے لہجے کو نبھالوں تو ترآ نام لکھوں


خواجہ وسعت افلاک وز میں تجھ پہ سلام

تیری لو دل میں بڑھا لوں تو ترا نام لکھوں

شاعر کا نام :- ابو الخیر کشفی

کتاب کا نام :- نسبت

دیگر کلام

یہ سلسلہ صدق و صفا کس سے ملا ہے؟

ظلمت نے چراغ اپنے بجھائے تو ہیں لیکن

پھر پیش نظر سید عالم کا حرم ہے

ٹوٹے دلوں کو صبر و شکییائی دے گیا

میرے سجدوں کے نشان اُن کی عطا میں شامل

ذہن کو اپنے سجالوں تو ترا نام لکھوں

جاده عشق محمد ﷺ کا تسلسل دیکھو

ایسے عاصی بھی ہیں جو تاب نظر رکھتے ہیں

وہ بصیرت اے خدا! منزل نما ہم کو ملے

بشر ہے وہ مگر عکس صفات ایسا ہے

لب عیسی پہ بشارت کی جو مشعل تھا کبھی