عبدالستار نیازی 1938 میں کپورتھلہ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک سادہ مگر روحانی طور پر مالامال خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد، مستری بدرالدین مغل، ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ تقسیم ہند کے بعد، وہ پاکستان ہجرت کر کے فیصل آباد میں آباد ہوئے، جہاں ان کا ادبی سفر مزید پروان چڑھا۔ جڑانوالہ روڈ کے علاقے جھال خانوآنہ، ستیانہ روڈ، فتح آباد میں ان کی رہائش تھی، اور یہیں سے وہ نعت گو شاعری میں اپنی پہچان بنانے لگے۔
عبدالستار نیازی نے 11 کتب تصنیف کیں، جن میں ان کی گہری روحانی وابستگی اور عشق رسول ﷺ جھلکتا ہے۔ ان کے مجموعے درج ذیل ہیں:
جلوے ای جلوے
نواۓ نیازی
یا حبیبی مرحبا
باب کرم
شمس الضحیٰ
بدر الدجیٰ
لجپال
پردہ پوش
حرف حرف خوشبو
جس شان توں شاناں سب بنیاں
اور بھی کچھ مانگ
یہ تمام کتابیں کلیاتِ نیازی میں شامل کی گئی ہیں، اور ان کے تمام کلام کو ایک ہی مجموعے میں اکٹھا کیا گیا ہے۔
عبدالستار نیازی کے ادبی سفر میں شاعری کا ایک عظیم ذخیرہ شامل ہے۔ ان کے کل کلام کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
کل کلام: 800 سے زائد
کل نعتیں: 580 سے زائد
کل حمدیں: 9
کل مناقب: 74
رباعیات و قطعات: 130 سے زائد
ان کی شاعری نے عقیدت مندوں کے دلوں میں عشق رسول ﷺ اور دینی جذبات کو مزید تقویت دی ہے۔
عبدالستار نیازی کی کئی نعتیں آج بھی بڑی عقیدت اور محبت سے پڑھی جاتی ہیں، جن میں شامل ہیں:
عبدالستار نیازی کی شاعری 1360 صفحات پر مشتمل ہے، جو ان کے شعری سفر کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ جولائی 2004 میں شائع ہوا، جب کہ دوسرا ایڈیشن مئی 2009 میں منظر عام پر آیا، تاکہ ان کا کلام نئی نسل تک پہنچ سکے۔
عبدالستار نیازی 15 جنوری 2002 کو فیصل آباد میں وفات پا گئے، مگر ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے۔ ان کی نعتیں مذہبی محافل میں عقیدت و احترام سے پڑھی جاتی ہیں اور سامعین کے دلوں میں عشق رسول ﷺ کی روشنی بکھیرتی ہیں۔
عبدالستار نیازی کی شاعری محبت، ایمان، اور عقیدت کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے اشعار میں جو روحانی خوبصورتی اور فکری گہرائی موجود ہے، وہ انہیں دیگر نعت گو شعرا میں منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
ان کے کلام کی خوشبو آج بھی عقیدت مندوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہے اور آنے والی نسلوں کو عشق مصطفیٰ ﷺ کا پیغام دیتی رہے گی۔
ہماری تازہ ترین خبروں اور مضامین سے باخبر رہیں