دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے

دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے

کون جانے تجھے کہاں تو ہے


لاکھوں پردوں میں تو ہے بے پردہ

سو نشانوں میں تو بے نشاں تو ہے


تو ہے خلوت میں تو ہے جلوت میں

کہیں پنہاں، کہیں عیاں تو ہے


نہیں تیرے سوا یہاں کوئی

میزباں تو ہے، مہماں تو ہے


نہ مکاں میں نہ لامکاں میں کچھ

جلوہ فرما یہاں وہاں تو ہے


رنگ تیرا چمن میں، بو تیری

خوب دیکھا تو، باغباں تو ہے


محرم راز تو بہت ہیں امیرؔ

جس کو کہتے ہیں رازداں، تو ہے

شاعر کا نام :- امیر مینائی

دیگر کلام

بن تیل دے دیوا بلدا ناں بن پانیوں پودا پھل دا ناں

بندگی رب کی کرو یہ بات آقاﷺ نے کہی

قلب کو اُس کی رُویت کی ہے آرزو

میرے مالک اے خدائے ذوالجلال

بزم افلاک میں ہر سو ہے اجالا تیرا

گر وقت آ پڑا ھےمایوس کیوں کھڑا ھے

اللہ کے پاک نام سے آغاز ہے مرا

میں دنیا دے کوبے اندر

لَا مَوجُوْدَ اِلَّا اللہ لَا مَشْھُوْدَ اِلَّا اللہ

خدایا مجھ کو وہ نورِ نظر دے