ہیں زمیں فلک کی جو رونقیں ، یہ فقط خدا کا کمال ہے
وہ چلائے نظمِ جہان بھی ، وہی ماضی ہے وہی حال ہے
اُسے نیند آئے نہ اُونگھ ہی ، کوئی کام اس کو کٹھن نہیں
وہ ازل بھی ہے وہ ابد بھی ہے نہ اُسے کبھی بھی زوال ہے
شب و روز ذکرِ خدا کرو ، ہمہ وقت ذکرِ نبی کرو
یہی ذکر راحتِ جاں بھی ہے ، یہی ذکر مآل و منال ہے
کہ ہر ایک چہرہ اسی کا ہے ، مگر اس کا چہرہ کوئی نہیں
وہ ہے ہر جگہ وہ کہیں نہیں ، وہ ازل سے ایک سوال ہے
جو چلے رسول کی راہ پر انھیں قربِ ربِّ عُلا مِلا
جو ولی ہیں رب کے انھیں یہاں نہ ہی خوف ہے نہ ملال ہے
وہ تھی صبحِ صادقِ پُر ضیا ، ہوئی جب تھی آمدِ مصطفیٰﷺ
وہ جو عید عیدوں کی عید ہے ، وہی صبحِ نور ، وہی سال ہے
رہِ مستقیم پہ جو چلا ، دوجہان میں وہ بھَلا رہا
اُسے سرفرازی عطا ہوئی وہ کرم سے رب کے نہال ہے
میں نہ اچھا انساں ہی بن سکا ، میں مسلماں کیسا ہوں کیا کہوں
مجھے رنج ہے تو فقط یہی ، مجھے بس یہی تو ملال ہے
ہے زباں پہ اس کی تیری ثنا ، ہے جو بندہ طاہرِؔ بے نوا
اے خدا اسے بھی ہو حج عطا ، یہی ایک اس کا سوال ہے