مولا تو مولا میں بندہ
تو ہے ساری خوبیوں والا
میں ادنیٰ تو اعلےٰ
تو شیشہ میں کنکر پتھر
تو اجلا میں گندہ مولا تو مولا میں بندہ
آدم آدم کروں میں ہر دم، دم آئے دم جائے
مٹی کا اک ڈھیر ہے بندہ سانس اگر تھم جائے
دم ہی جیون کی مالا ہے
دم ہی گلے کا پھندہ
مولا تو مولا میں بندہ
چاند اور سورج والے میری دنیا کالی کالی
تیری مرضی کے سکّوں سے میری جیب ہے خالی
لیکن میری ہر دھڑکن پر
تیرا نام ہے کندہ
مولا تو مولا میں بندہ
داغ داغ ہے دامن پھر بھی تجھ سے آس لگاؤں
گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر من کی پیاس بجھاؤں
تیرے دیوانوں سے مانگوں
تیرے عشق کا چندہ
مولا تو مولا میں بندہ
آنسو میرے ہیرے موتی، سارے تن پر ٹانکوں
دل میرا باہر کو آئے جب بھی اندر جھانکوں
درد کا اس دکھ بھرے جہاں میں
بھاؤ ہے کتنا مندہ
مولا تو مولا میں بندہ